قرآن حق ہے
تحریر:اظہر عباس
(December 26, 2010)
إِنَّا نَحۡنُ
نَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡقُرۡءَانَ تَنزِيلاً۬ ۔۔ 76/23
بےشک
ہم نےہی آپ پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا اتارا ہے
وَيَرَى
ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡعِلۡمَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ
ٱلۡحَقَّ وَيَهۡدِىٓ إِلَىٰ صِرَٲطِ ٱلۡعَزِيزِ ٱلۡحَمِيدِ ۔۔34/6
اور
جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو (قرآن) تمہارے پروردگار کی طرف سے
تم پر نازل ہوا ہے وہ حق ہے۔ اور (خدائے) غالب اور سزاوار تعریف کا رستہ بتاتا
ہے
فَوَرَبِّ
ٱلسَّمَآءِ وَٱلۡأَرۡضِ إِنَّهُ ۥ لَحَقٌّ۬ مِّثۡلَ مَآ أَنَّكُمۡ
تَنطِقُونَ ۔۔51/23
پس
آسمان اور زمین کے مالک کی قسم ہے بے شک یہ (قرآن)برحق ہے جیسا تم باتیں کرتے
ہو
سطور بالا میں آپ قرآن
کریم کی داخلی شہادت ملاحظہ فرما چکے ھیں کہ آنحضورۖ پر قرآن نازل ھوا جو مکمل طور پر حق ھے۔
سوال یہ ھے کہ
حق
کی تعریف کیا ھے؟
عربی زبان میں ھر اس
چیز کو جو اس طرح بشکلِ مشہود موجود ھو کہ اس کے وجود سے دوست دشمن اور موافق و
مخالف کسی کو مجال انکار نہ ھو۔ مثلاً جب شکاری کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھے اور
شکار مجروح حالت میں سامنے پڑا ھو تو عربوں کے ھاں کہتے ھیں۔۔
"رمی فاحق الرمیة"
اگر اونٹنی کا حمل جب
اس طرح نمایاں ھو جائے کے کوئی انکارنہ کرسکے تو کہتے تھے۔۔۔
"عند حق لقاحھا"
اس طرح چونکہ ارض و
سمٰوات اور میں موجود ھر شۓ
کا وجود ایک ناقابل انکار حقیقت ھے۔ اس لیے یہ پوری کائنات حق ھے۔
چنانچہ ارشادِ باری
تعالٰی ھے۔۔۔۔
خَلَقَ
ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضَ بِٱلۡحَقِّ۔۔۔64/3
اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا ۔۔۔
اس ھی طرح ھر وقوعہ کو
اس کی حقیقی جُزئیات سمیت حق کہا جاتا ھے۔ اور وہ الفاظ جن سے اس
وقوعہ کا ٹھیک ٹھیک اور صحیح صحیح اظہار ھوتا ھے وہ بھی حق کہلاتے
ھیں۔ قرآن کریم چونکہ وقوعہ کائینات کی ٹھیک ٹھیک خبر دیتا ھے،چونکہ اس کے الفاظ
اس کی صحیح صحیح ترجمانی کرتے ھیں۔ اس لیے یہ بھی حق ھے۔
چنانچہ اس قرآن کے لیے
بھی اللہ نے فرمایا۔۔۔
نَزَّلَ عَلَيۡكَ
ٱلۡكِتَـٰبَ بِٱلۡحَقِّ مُصَدِّقً۬ا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَأَنزَلَ
ٱلتَّوۡرَٮٰةَ وَٱلۡإِنجِيلَ۔۔۔۔۔3/3
اس
نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتی ہے
اور اسی نے تورات اور انجیل نازل کی
اس ھی کی تفسیر
القرآن بآیٰتِ الفرقان کی خدمت کے لیے آج میں اس میدان عمل میں اتر رھا
ھوں۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا اس سے پہلے کوئی تفسیر موجود نہیں؟؟؟ کہ
ھم اس کام میں اپنا وقت اور توانائی صرف کریں۔ اس کا جواب جگر تھام کر سُننا پڑے
گا۔ آج امت کے پاس متقدمین و متاخرین کی تفاسیر کے ڈھیر
لگے ھوئے ھیں۔۔ جن کی تفصیل کُچھ اس طرح ھے۔۔۔
تفسیر
ابن جریر طبری علیھ رحمہ۔۔۔30 جلدیں۔۔۔۔ تفسیر امام غزالی علیہ رحمہ۔۔۔۔۔۔۔۔20
جلدیں تفسیر امام ابن جوزی علیہ رحمہ۔۔۔40 جلدیں۔۔۔ تفسیر ابن النقیب۔۔۔50
جلدیں۔۔۔ تفسیر الافودی۔۔۔120جلدیں۔۔۔ تفسیر حدائق ذات الہتجبہ۔۔ 500جلدیں۔۔
تفسیر مدارک التنزیل ۔۔ 7 جلدیں۔۔معالم التنزیل اور تفسیر کبیر کی 8 جلدیں۔۔۔روح
المعانی کی 9 جلدیں۔۔ تفسیر مریسی کی 24 جلدیں۔۔کتاب الجامع فی التفسیر کی 30
جلدیں اور کتاب التحریر والتجیر کی 50 سے زائد جلدیں
اس کے علاوہ بغوی
،بیضاوی،کشاف ،سخاوی،بلقیسی، بقاعی ، فراہی، شوکانی،مہائمی،ابن تیمیہ، مادردی، ابن
منذر ،ابن حیان ،ابن فورک اور ابن ابی طالب مکی وغیرہ جیسی سینکڑوں
تفاسیر پانچ پانچ اور سات سات جلدوں پر مشتمل اس عظیم ذخیرہ کی صورت میں موجود
ھیں۔ ان سب کا مطالعہ کرنا اور ان کے مندرجات کو محض سرسری نگاہ سے دیکھنا بھی
انتہائی مشکل ھے۔۔۔اگر کوئی شخص متقدمین اور متا خرین کی تفاسیر
سے استفادہ حاصل کرنے کا ارادہ کر بیٹھے۔۔جن میں کئی کئی سو صفحات پر مشتمل پانچ
سو صفحات کی جلدیں بھی موجود ھیں۔ تو اس کی زندگی ختم
ھو جائے گی۔۔یہ تفاسیر ختم نہیں ھوں گی۔۔یہ تو تھیں متقدمین کی
تفاسیر۔۔متاخرین میں سے شاہ عبدالقادر،شاہ اشرف علی،شاہ
عبدالعزیز،شاہ محمودالحسن،ابوالکلام آزاد،ڈپٹی نذیر احمد،مولوی فیروزالدین۔۔مولوی
احمد علی لاھوری،اور مولوی ثنااللہ امرتسری کے علاوہ تفسیر نعیمی
، تفہیم القرآن،اور جامع التفاسیر جیسی سینکڑوں تفاسیر کے الگ ڈھیر پڑے
ھیں۔۔
ان لاکھوں صفحات
پر پھیلی ھوئی ھزاروں تفاسیر کا انداِز بیاں واحد
ھے۔ تفسیر ابن جریر کو چونکہ اُم التفاسیرمانا
گیا ھے،اس لیے سب تفسیریں قریب قریب اس ھی تفسیر کا پرتو ھیں۔اور
چونکہ تفسیر ابن جریر کا ماخذ کتب روایاتھے۔اور روایات کو
چونکہ احادیث رسولۖ
مانا گیا ھے ۔ اس لیے یہ ھزاروں کی تعداد کو پہنچنے والی تفاسیر، اگرچہ متفقہ
طورپر یہ فیصلہ نہیں دے سکتیں کہ سورہ بقرہ میں ایت نمبر 2/102 میں ھاروت
و ماروت شیطان تھے یا فرشتے، لیکن پھر بھی ان سب کو رسولی
تفسیریں ھی مانا جاتا ھے۔۔حالانکہ قرآن کریم کی شہادت سے جو آگے بیان
کروں گا۔۔یہ ثابت ھوتا ھے کہ حضورۖ
کا تفسیری انداز صرف اور صرف تفسیر القرآن باالقرآن تھا۔۔۔
ھمارے بہت سارے احباب
اس حوالے سے اعتراض کرتے ھیں کہ کیا خود حضورۖ قرآنی تفسیر کے لیے قرآن
کے محتاج تھے۔۔کیا آنحضورۖ
اپنی رائے سے تفسیر نہیں فرمایا کرتے تھے۔۔
دوستو۔۔۔۔ ان حالات میں جہاں
قرآن کریم کو مجمل ،غیر مفصل،اور کتب روایات کا
محتاج مانا جاتا ھو۔۔ یہ سوال اچھنبے کی صورت میں ابھر کر سامنے آتا ھے
کہ کیا قرآن اپنی تفسیر آپ کر سکتا ھے۔۔ اور اس سوال کے جواب کے
لیے سطور ذیل پرعقل و فکر اور شعور کی گہرائیوں
سے غور کیجئے۔۔۔۔کہ
یہ
ایک ناقابل انکار حقیقت ھےکہ کسی کتاب کی تفسیر وہ شخص کر سکتا ھے۔جو علمی لحاظ سے
یا تو صاحب کتاب سے افضل حیثیت کا حامل ھو، یا کم از کم اس ھی علمی سطح پر فائز ھو
جو خود صاحب کتاب کی ھے۔۔۔۔ لیکن قرآن کریم اللہ کی کتاب ھے۔۔۔ اور کوئی فرد و بشر
علم کی رو سے نہ اس سے افضل ھو سکتا ھے، اور نہ اس علمی سطح کا۔۔۔۔یہ بہت اھم نکتہ
ھے اور میں چاھوں گا کہ اس کو عقیدت سے نہیں بلکہ علم سے شعور سے سمجھا جائے۔۔۔
چنانچہ اس چیز کا سوال
ھی نہیں پیدا ھوتا کہ اللہ کی کتاب کا مفسر کوئی بشر ھو۔۔۔ یہ ھی وجہ ھے کہ اللہ
کریم نے اعلان فرمایا کہ اپنی کتاب کا مفسر بھی میں خود ھوں۔۔۔
وَقَالَ
ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَيۡهِ ٱلۡقُرۡءَانُ جُمۡلَةً۬ وَٲحِدَةً۬ۚ
ڪَذَٲلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِۦ فُؤَادَكَۖ وَرَتَّلۡنَـٰهُ تَرۡتِيلاً۬ (٣٢) وَلَا
يَأۡتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئۡنَـٰكَ بِٱلۡحَقِّ وَأَحۡسَنَ تَفۡسِيرًا۔۔۔۔25/33
اور
کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ (پیغمبرﷺ) پر یہ قرآن دفعتاً واحدةً کیوں نہیں نازل کیا
گیا اس طرح (تدریجاً) اسلیے (ہم نے نازل کیا) ہے تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے آپ کے دل
کو قوی رکھیں اور (اس لیے) ہم نے اس کو بہت ٹھیرا ٹھیرا کر اتارا ہے۔ (۳۲) یہ لوگ کیسا ہی
عجیب سوال آپ کے سامنے پیش کریں گے مگر ہم (اس کا) جواب اور وضاحت میں بڑھا ہوا آپ
کو عنایت کردیتے ہیں۔
آیت بالا سے واضح ھوا
کہ اللہ نے اپنے کلام کی تفسیر احسن تفسیرا کے الفاظ سے بتا دی
کہ اس کی تفسیر بھی اللہ نے کر دی ھے۔۔۔۔اس نکتہ کو ذہن نشین کر لینا چاھیے۔۔۔۔کہ
کوئی فرد و بشر علم کے لحاظ سے نہ اللہ سے افضل ھے نہ برابر۔۔اس
لیے اس کی کتاب کا مفسر کوئی بشر ھو نہیں سکتا۔۔ وہ اپنی کتاب کا مفسر بھی آپ ھی
ھے۔۔۔جیسے کہ اس نے قرآن کریم پر تدبُر و تفکر کرنے والوں کے
لیے بتکرار کثیر اعلان کر دیا کہ اپنی آیات کی تفسیر و
تفصیل ھم خود ھی کرتے ھیں۔۔۔
كَذَٲلِكَ
نُفَصِّلُ ٱلۡأَيَـٰتِ لِقَوۡمٍ۬ يَتَفَڪَّرُونَ ۔۔۔۔10/24
ہم
اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔
قَدۡ
فَصَّلۡنَا ٱلۡأَيَـٰتِ لِقَوۡمٍ۬ يَفۡقَهُونَ ۔۔۔6/98
بیشک
ہم نے یہ دلائل (بھی توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کردئیے ان لوگوں کے
لیے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔
اور ساتھ ھی قرآن کریم
پر تدبر کرنا فرض قرار دے کر عدم تفکر کے لیے سخت تنبیہ فرمائی ھے۔کہ
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ
ٱلۡقُرۡءَانَ أَمۡ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقۡفَالُهَآ۔ 47/24
پھر کیوں قرآن پر غور
نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑہوئےہیں
كِتَـٰبٌ
أَنزَلۡنَـٰهُ إِلَيۡكَ مُبَـٰرَكٌ۬ لِّيَدَّبَّرُوٓاْ ءَايَـٰتِهِۦ
وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُواْ ٱلۡأَلۡبَـٰبِ ۔۔۔38/29
یہ با برکت کتاب ہے جس
کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ
اہلِ فہم نصیحت حاصل کریں۔
غور فرمائے گا۔ آیات
بالا سے بالصراحت ثابت ھوتا ھے کہ قرآن کریم پر تدبر و تفکر نہ
کرنا منشاء الٰہی کے خلاف ھے۔ نیزتدبر فی القرآن کو
قیامت تک جاری و ساری رکھا گیا ھے۔ اور آیات مذکورہ کے الفاظ تا قیامت
قرآن کریم میں شاھد و موجود رھیں گے۔۔لہٰذا ذہن کو کسی سابقہ دور کے تدبر و
تفکرکے تالوں کے ساتھ مقفل کرلینا۔۔قرآن کریم کی لا محدود وسعتوں کو محدود
کرنے کے مصداق ھے۔۔
تفقہ
فی القرآن کا قرآنی طریقہ۔۔۔
اب سوال یہ پیدا ھوتا
ھے۔ کہ قرآن کریم پر تدبر و تفقہ کا طریقہ کیا ھے؟ کیا آیات
قرآنیہ کی تفصیل و تفسیر کے لیے ان غیر قرآن کتابوں کی طرف
رجوع کیا جائےگا جو ایک ایک آیت کے کئی کئی شان نزول اور کئی
کئی تفسیریں پیش کرتی ھیں؟ یا پھر وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو
اس کے نازل کرنے والے نے خود بتایا ھے۔۔۔۔۔فرمایا گیا۔۔
ٱنظُرۡ
كَيۡفَ نُصَرِّفُ ٱلۡأَيَـٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَفۡقَهُونَ۔۔۔۔۔۔6/65
آپ
دیکھیے تو سہی ہم کس طرح دلائل مختلف پہلووٴں سے بیان کرتے ہیں شاید وہ سمجھ
جاویں۔
ٱنظُرۡ
ڪَيۡفَ نُصَرِّفُ ٱلۡأَيَـٰتِ ثُمَّ هُمۡ يَصۡدِفُونَ ۔۔۔۔6/46
آپ
دیکھئے تو ہم کس طرح دلائل کو مختلف پہلووٴں سے پیش کررہے ہیں پھر بھی یہ اعراض
کرتے ہیں۔
قرآن کریم کا اسلوب بیان
یہ ھے کہ اللہ نے اپنی پاکیزہ کتاب کی آیتوں کو اس طرح پھیر پھیر کر
بیان کیا ھے کہ اس سے تفقہکے دروازے کھلتے اور تدبر فی القرآن کی
شمعیں روشن ھوتی ھیں۔ اور تصریف آیات کا اسلوب اختیار کرنے کا
مقصد عظیم یہ بتایا گیا کہ لوگ تدبر فی القرآن کے لیے تصریف آیات ھی
کا انداز اختیار کریں۔ یعنی ھرآیت کے مفہوم و معانی کی تصدیق دوسری
آیات کریمات ھی کے ساتھ کیا کریں۔۔۔پہلی آیت مبارکہ اس ھی اصول کو بیان کرتی
ھے۔۔
نیز دوسری آیت سے واضح
ھوتا ھے کہ تفقہ فی القرآن کے لیے تصریف آیات کے
قرآنی اسلوب کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کرنے کو
قرآن سے فرار قرار دیا گیا ھے۔۔۔۔چنانچہ قرآن کریم کو سمجھنے کا واحد طریقہ
جو خود اللہ کی ذات ھمیں بتاتی ھے وہ تصریف آیات ھے۔۔۔
اب سب سے اھم
سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ خود حامل قرآن حضور اکرمۖ کا طرز
تدریس کیا تھا۔ کیا آپۖ بھی تصریف آیات کے ساتھ
درس قرآن دیا کرتے تھے ، یا آپۖ کا طریقہ تفقہ تفسیر بالرائے کا
حامل تھا؟ اس سوال کا جواب اللہ نے خود آنحضورۖ کی طرف ایک مخصوص خطاب فرماتے ھوئے اس طرح سے دیا ھے۔۔۔۔۔
وَكَذَٲلِكَ
نُصَرِّفُ ٱلۡأَيَـٰتِ وَلِيَقُولُواْ دَرَسۡتَ وَلِنُبَيِّنَهُ ۥ لِقَوۡمٍ۬
يَعۡلَمُونَ۔۔۔۔۔6/105
اور
ہم اسی طرح اپنی آیتیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم (یہ
باتیں اہل کتاب سے) سیکھے ہوئے ہو اور تاکہ سمجھنے والے لوگوں کے لئے تشریح
کردیں ۔۔۔
کہ
اپنی آیات پھیر پھیر کر بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ آپ لوگوں کواس طریقہ سے ساری
بات کی تشریح کر دیں۔۔۔۔
اب آتے ھیں ان تفاسیر کی
طرف کہ جنھیں رسول اللہ کی طرف منسوب کرکے امت کو اندھیروں دفن
کر دیا گیا۔۔۔۔میں چند مثالوں تک ھی محدود رھوں گا۔۔۔۔اہل علم خود ان
تفاسیر کا مطالعہ کر کے دیکھ سکتے ھیں کہ امت کے ساتھ یہ کیا ظلم
عظیم ھوا ھے۔۔۔۔
ان رسولی تفسیر کی
حالت یہ ھے کہ کسی آیت مجیدہ میں جو امر تفسیر
طلب ھوتا ھے اس کی طرف رخ ھی نہیں کیا جاتا۔۔۔مثلأ۔۔
وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلۡأَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ
عَلَى ٱلۡمَلَـٰٓٮِٕكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِى بِأَسۡمَآءِ هَـٰٓؤُلَآءِ إِن
كُنتُمۡ صَـٰدِقِينَ۔۔۔2/31
اور
اس نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا
کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔۔۔
اس آیت مبارکہ
میں تفسیر طلب امر تو یہ ھے کہ اللہ نے آدم کو کون سے
نام سکھائے تھے۔۔۔اب اس آیت کی تفسیر بخاری شریف میں
اس طرح آتی ھے۔۔۔
"قیامت
میں لوگ حضرت آدم کے پاس شفاعت کے لیے جائیں گے لیکن وہ کہیں گے کہ مجھے اپنا گناہ
یاد آ رھا ھے۔ تم نوح کے پاس جاو ۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔{کتاب التفسیر جلد دوئم صحيح
بخاری صفحہ نمبر0 71
اب یہ فیصلہ تو قارئیں
ھی کر سکتے ھیں کہ اس میں کہیں اس بات کا ذرا سا بھی ذکرھے کہ اللہ نے آدم کو
جو اسماء سکھائے تھے وہ کیا تھے۔۔۔کیا یہ آنحضورۖ کی تفسیر ھوسکتی
ھے؟۔۔۔
اللہ کریم قرآن
میں فرماتا ھے۔۔۔
وَأَنزَلۡنَآ
إِلَيۡكَ ٱلذِّڪۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡہِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ
يَتَفَكَّرُونَ ۔۔۔۔16/44
اور
ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ لوگو ں کے لیے واضح کر دے جو ان کی طرف نازل
کیا گیا ہے اور تاکہ وہ سوچ لیں ۔۔۔
اللہ کریم نے تو حضور
کی ذمہ داری یہ بتائی کہ آپۖ اس قرآن کو لوگوں تک واضح انداز میں پہنچا
دیں۔۔۔اب اگر اسے ھیواضح کرنا کہتے ھیں جو وَعَلَّمَ ءَادَمَ
ٱلۡأَسۡمَآءَ کے
حوالے سے بخاری شریف کی تفسیر بتا رھی ھے تو پھر آپ
ھی سوچیں کہ حضور نے کس طرح اللہ کے اس حکم کی اطاعت کی؟؟؟؟؟؟
اور امت کی یہ حالت ھے
کہ اس اسماء آدم کے حوالے سے ایک فرقہ احادیث
سے یہ ثابت کرتا ھے کہ یہ اللہ کے نام تھے جو آدم کو سکھائے
گیے۔۔۔۔۔تو دوسری جانب ایک اور فرقہ کہتا ھے کہ نہیں
ہماری حدیث کے مطابق یہ بارہ اماموں کے نام ھیں۔۔۔۔۔
چنانچہ یہ بات طے ھے کہ
قرآن کی تفسیر خود قرآن ھی کرتا ھے۔۔۔اللہ نے فرمایا۔۔۔۔
وَنَزَّلۡنَا
عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَـٰبَ تِبۡيَـٰنً۬ا لِّكُلِّ شَىۡءٍ۬ وَهُدً۬ى وَرَحۡمَةً۬
وَبُشۡرَىٰ لِلۡمُسۡلِمِينَ۔۔۔۔۔16/89
اور
ہم نے تم پر (ایسی) کتاب نازل کی ہے کہ (اس میں) ہر چیز کا بیان (مفصل) ہے اور
مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے
اللہ نے اس کتاب
میں دین سے متعلق ھرشے بہت واضح اور مفصل بیان
کر دی ھے اور اسے سمجھنے کے لیے کسی انسان کی اپنی فہم اور خیالات پر مبنی
کسی تفسیر کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔۔۔۔۔۔
چنانچہ باری تعالٰی نے
آیت بالا میں اپنی کتاب کی اکملیت اور اس کے اپنی تفسیر ھونے
کی تصدیق کس وضاحت کے ساتھ کر دی ھے۔۔۔
چنانچہ آیت 6/65۔۔۔۔۔6/105۔۔۔کے
مطابق حضورۖ اپنے درسوں میں اس
کتاب کی تفسیر خود اس ھی کے ساتھ ھی فرمایا کرتے تھے۔۔۔جو تِبۡيَـٰنً۬ا
لِّكُلِّ شَىۡءٍ۬ ھے۔۔۔۔اور
چونکہ یہ کتاب خود مکمل ،مفصل، اور مفسر ھے ۔اور کسی بھی انداز
میں کسی غیر اللہ کتاب کی محتاج نہیں۔۔اس ھی لیے اللہ جل و شانہ نے
پوری امت مسلمہ کے لیے قرآن کریم کے سوا کسی اور کتاب کو واجب
الاتباع ٹھرایا ھی نھیں۔۔بلکہ غیر اللہ کتابوں کے خیر
خواھوں کی اتباع سے مطلقأ روک دیا ھے۔۔۔۔
ارشاد باری تعالٰی ھے۔۔۔۔۔
ٱتَّبِعُواْ
مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكُم مِّن رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِۦۤ
أَوۡلِيَآءَۗ قَلِيلاً۬ مَّا تَذَكَّرُونَ ۔۔۔۔۔7/3
تم
لوگ اس کا اتباع کرو جو تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے آئی ہے اور خدا تعالیٰ کو
چھوڑ کر دُوسرے رفیقوں کا اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو
دیکھیے گا اس آیت
مبارکہ پر غور کرنے سے یہ چیز نکھرکر عیاں ھو رھی ھے کہ جب قرآن کریم کے سوا کوئی
اورکتاب واجب الاتباع ھے ھی نہیں تو ظاھر ھے کہ قرآن کریم نوع
انسانی کی جملہ ضروریات کے لیے کافی ھے۔۔۔اگر یہ تفسیری ضروریات کی
رو سے ناکافی ھوتا تو ۔۔۔ وَلَا تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِۦۤ
أَوۡلِيَآءَۗ کے بعد الا اولیاء کتب التفاسیر یا اولیاء کتب الروایات کے الفاظ آنے چاھیے
تھے۔۔۔۔
چنانچہ یہ بات روز روشن
کی طرح عیاں ھے کہ اللہ کی کتاب کسی دوسری انسانی تفاسیر کی محتاج نہیں۔۔۔اور
حضور اللہ کے بتائے ھوئے طریقہ یعنی تصریف الآیات کی رو سے ھی
قرآن سکھاتے تھے۔۔۔۔
بالفاظ
دیگر آنحضورۖ کی تفسیر خود قرآن کریم
کے اندر موجود ھے۔۔۔یعنی ھر متنازعہ آیت کا مفہوم قرآن کریم کی دوسری آیات کو بطور
شاھد لا کر اخذ کرنا ھی سنت رسول اللہ ھے۔۔۔یعنی کسی بھی آیت کی تفسیر و تشریح کے
لیے غیراللہ کتابوں کا رخ کرنا نہ منشاء الٰہی ھے اور نہ سنت رسول۔۔۔۔
قرآن
فہمی کےقرآنی اصول و قواعد کی اتباع لازم ھے۔۔۔
جیسا کہ عرض کیا ھے کہ
سابقہ تراجم و تفاسیر ایک دوسرے سے بھی مختلف ھیں
اور خود اپنے اپنے دامن میں بھی شکمی اختلافات کے ذخائر سمیٹے
ھوئے ھیں، جس سے حق اور صداقت کے متلاشی افراد سر پکڑ کے بیٹھ
جاتے ھیں۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ھےکہ ۔۔۔
روایات کی مدد سے کی گئی
یہ تفاسیر ،ثنائی وضع القرآن ،عزیزی اور نعیمی وغیرہ سب رسولی
تفسیریں ھیں۔۔ اور دوسری طرف ان رسولی تفاسیر میں اس
قدر تضاد اور تخالف ھے کہ تفسیر ثنائی ھاروت و ماروت کو
شیطان کہتی ھے تو موضع القرآن انھیں فرشتہ بتاتی ھے۔
آیت 38/32 میں، ولی
اللہی تفسیر جس ضمیر کا مرجع سورج ٹہراتی ھے ، تفسیر ثنائی اسے گھوڑوں کی
طرف لے جاتی ھے۔۔۔
تفسیر
ثنائی جن الفاظ سے خدا کی محبت مراد لیتی ھے موضع القرآن ان ھی سے اللہ کے ذکر سے
غفلت قرار دیتی ھے،"انی احببت حب الخیرعن ذکر ربی"۔ آیت 38/32
حتٰی کہ ان تفاسیر و
تراجم میں حروف کے مقامی معنوں تک میں باھمی اختلاف موجودھے۔
" وما انزل علی الملکین
ببابل ھاروت و ماروت" 2/102 ۔۔۔کے
"ما" کو تفسیر
ثنائی نافیہ ٹہرا کر یہ تاثر دیتی ھے کہ بابل شھر کے ھاروت و
ماروت دو شیطان تھے ۔ ان پر کچھ نازل نہیں ھو تھا ۔ اور اشرفی
،نعیمی، عزیزی، وغیرہ تفاسیر نے اس "ما" کوموصولہ
گردان کر یہ مشہور کر رکھا
ھے کہ ھاروت و ماروت دو فرشتے تھے اور ان پر اللہ تعالٰی کی طرف سے جادو
نازل ھوا تھا۔ العیاذ باللہ۔۔۔
یہ تو ھوا ان مختلف
تراجم اور تفاسیر کا ایک دوسری کے ساتھ شدت تضاد و تخالف کا
عالم جن میں سے ہر ایک کو رسولی تفسیر ھونے کا دعوٰی کیا جاتا ھے
کہ یہ سب کتب روایات کی مرھون منت ھیں۔۔۔لیکن جب ان میں ایک ایک
پر الگ الگ غور کیا جائے، تو معلوم ھوگا کہ یہ سب کی سب شکمی اختلاف سے
بھی معمور ھیں۔ کہیں لکھتی ھیں کہ
اللہ تعالٰی گمراھوں
کو سخت سزا دینے والا ھے "واللہ شدید العقاب" 3/11
اور کہیں یہ تاثر دیتی
ھیں کہ
خوراللہ
ھی گمراہ کرتا ھے۔ اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔۔"ومن تضلل اللہ فمالھ من
ھاد۔۔" 39/36
اور اس طرح ان تفاسیر
و تراجم سے معاذ اللہ یہ تصور جنم لیتا ھے کہ اللہ خود ھی
انسانوں کو گمراہ کر دیتا ھے اور پھر خود ھی انھیں شدید عذاب کی وعید سناتا
ھے۔۔استغفراللہ۔۔۔۔
ایک طرف یہ تفاسیر اور
تراجم یہ نظریہ پیش کرتے ھیں کہ اللہ پورے عالمین کا پالن ھار ھے۔۔" الحمد للہ رب العلمین" ھے
اور
ھر ذی جان کا رزق اللہ کے ذمہ ھے
وما
من دآبة فی الارض الا علی اللہ رزقھا" 11/6۔
اور دوسری طرف مشاھدات
عالم میں اس مفہوم کی عملی تکذیب پائی جاتی ھے ۔ کیوں
کہ ایک ایک قحط میں لاکھوں انسان اور کروڑوں مویشی علماء کرام کی نگاھوں کے سامنے
بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ھیں۔۔۔۔۔
حقیقت
حال
تو اس طرح جو شخص قرآن
کریم کی ان تفاسیر و تراجم سے استفادہ کی کوشش کرتا ھے، الٹا بحر استعجاب میں
غرق ھو جاتا ھے کہ کیا یہمختلف و متضاد مفاھیم اس ھی کتاب مقدس کے ھیں
جس کی داخلی شہادت یہ ھے کہ اس میں تضاد و تخالف کا گزر تک
نھیں۔۔۔
أَفَلَا
يَتَدَبَّرُونَ ٱلۡقُرۡءَانَۚ وَلَوۡ كَانَ مِنۡ عِندِ غَيۡرِ ٱللَّهِ
لَوَجَدُواْ فِيهِ ٱخۡتِلَـٰفً۬ا ڪَثِيرً۬ا ۔۔۔4/82
کیا یہ لوگ قرآن میں
غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں
بہت اختلاف پاتے
حقیقت یہ ھے کہ قرآنی
دعووں کی پامالی کی وجہ یہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب کو سمجھنے کے
لیے جو اصول خود بیان فرمائے ھیں۔ ان سے مطلقاً اعراض برتے ھوئے ،
قرآن حکیم کی تفسیر ان کتابوں کو ٹہرا لیا گیا ھے جن کے
متعلق مشہور تو یہ ھے کہ یہ قرآن کی رسولی اور پیغمبرانہ
تفسیر ھیں لیکن ان کتابوں کا اپنا اعلان یہ ھے کہ ان کے مندرجات ، عن
فلاں عن فلاںکی روایت سے آنحضورۖ کی طرف منسوب ھیں۔۔۔
یہاں دِل پر
پتھر رکھتے ھوئے یہ تحریر کرنے کی جرأت کر رھا ھوں کہ ذخیرہ
روایات کو اگر قرآن کی رسولی تفسیر مانا جائے تو صاحب
قرآنۖ کو قرآن فہمی کے
ان قواعد و اصول سے معاذ اللہ معاذ اللہ بے خبر ماننا پڑتا ھے ،
جو خود اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب کے اندر محفوظ کر رکھے ھیں۔
آنحضورۖ سے منسوب کردہ ایک
تفسیر کا نمونہ ملاحظہ فرمایں ۔۔ جو بخاری شریف کے
الفاظ میں یہ تاثر دیتا ھے کہآنحضورۖ کے مقابلے پر حضرت عمر رضی اللہ
عنہ قرآن کی بہتر تفسیر جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ
آنحضورۖ کی تفسیر کی بجائے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کی تفسیر کی تائید فرماتا تھا۔۔ چنانچہ آیت ذیل پر غور کریں اور پھربخاری
شریف میں درج اس کی رسولی اور فاروقی تفاسیر کا
تقابل ملاحظہ فرمائيں۔۔۔
ٱسۡتَغۡفِرۡ
لَهُمۡ أَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ إِن تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ سَبۡعِينَ مَرَّةً۬
فَلَن يَغۡفِرَ ٱللَّهُ لَهُمۡۚ ذَٲلِكَ بِأَنَّہُمۡ ڪَفَرُواْ بِٱللَّهِ
وَرَسُولِهِۦۗ وَٱللَّهُ لَا يَہۡدِى ٱلۡقَوۡمَ ٱلۡفَـٰسِقِينَ 9/80
تم
ان کے لیے بخشش مانگو یا نہ مانگو۔ (بات ایک ہے)۔ اگر ان کے لیے ستّر دفعہ بھی
بخشش مانگو گے تو بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے خدا اور اس کے
رسول سے کفر کیا۔ اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
آیت
مجیدہ کے الفاظ سے
ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ھے کہ آنحضورۖ کومنافقین کے لیے طلب مغفرت
سے منع کر دیا گیا ھے کیونکہ جس عمل کا کرنا اور نہ کرنا اللہ کے نزدیک برابر ھو
اللہ کے رسول سے اس عمل بے کار کا ارتکاب ھر گز ممکن نہیں۔ لیکن
بخاری شریف کی ایک روایت یہ تاثر دیتی ھے کہ آنحضورۖ نے اپنے ذہن میں
یہ تفسیر محفوظ فرما رکھی تھی کہ آپ کو اختیار دے دیا گیا ھے کہ چاھیں تو
منافقوں کے لیے طلب مغفرت فرمایئں اور چاھیں تو نہ فرمایں۔۔۔۔ لیکن حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت سے یہ مفہوم اخذ کیا کہ آنحضورۖ کو منافقین کی طلب مغفرت
سے مطلقاً روک دیا گیا ھے۔۔ روایت ھے۔۔۔
"مسدد
، یحٰي بن سعید، عبید اللہ، نافع ابن عمر سے روایت کرتے ھیں کہ عبداللہ بن
ابی{منافق} جب مرا تو اس کا بیٹا رسول اللہۖ کے پاس آیا ۔ اور عرض کی یا رسول اللہ ھمیں اپنا
کرتا عنایت فرما دیں کہ ھم اس میں سے ان کا کفن بنائیں۔اور آپۖ اس پر جنازے کی نماز
پڑھیں اور اس کے لیے دعائے مغفرت فرمایں۔۔۔ نبیۖ نے اس کو اپنا کرتا عنایت فرمایا۔ اور فرمایا کہ
مجھے خبر کر دینا تو میں نماز پڑھا دوں گا۔ جب آپۖ نے اس پر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو حضرت عمررضی
اللہ عنہ نے آپۖ کو کھینچا اور کہا کہ اللہ نے آپ کو منافقین پر نماز پڑھنے سے منع
کیا ھے۔۔آپۖ فرمایا کہ مجھے دونوں باتوں
کا اختیار دیا گیا ھے {یعنی اللہ تعالٰی نے فرمایا ھےکہ } تم ان کے لیے دعائے مغفرت
کرو یا نہ کرو۔ اگر تم ان کے لیے ستر بار بھی دعائے مغفرت کرو گے تو بھی اللہ انہیں
نہیں بخشے گا۔۔۔ جنانچہ آپۖ نے اس پر نماز پڑھی تو یہ آیت نازل ھوئی۔ و لا تصل علی احد منھم
ابدا۔۔84/9۔۔۔۔۔۔۔اور ان میں
سے کسی پر کبھی بھی نماز نہ پڑھنا جب کہ مر جائیں۔۔۔ {بخاری شریف جلد اول صفحہ
485}
یہ ھے بجاری
شریف کی پیش کردہ رسولی تفسیر کا نمونہ کہ آیت مجیدہ
مذکورہ کے انداز بلاغت سے حضرت عمررضی اللہ عنہ تو سمجھ جائیں
کہ آنحضورۖ کو منافقین کی لیے دعائے
مغفرت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا بلکہ ان کے لیے دعاء مغفرت کرنے سے مطلقاً
منع کر دیا گیا ھے- لیکن صاحب قرآنۖ خود قرآنی انداز فصاحت و بلاغت سے الٹا مفھوم
اخذ فرمائیں کہ
" "استغفرلھم
اولا تستغفرلھم" کے الفاظ میں آپۖ
کو منافقوں کے لیے طلب مغفرت کرنے یا نہ کرنے کے دونوں اختیار عطا فرمائے گئے ھیں۔
اس الٹ مفہوم کی بنا پرحضرت عمررضی اللہ عنہ کے منع کرنے،
بلکہ مصلے سے کھینچنے کے باوجود آیت مذکورہ 9/80 کی
مخالفت کا ارتکاب کر بیٹھیں۔۔ اور اس پر اللہ تعالٰی حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کے فہم قرآن کی تصدیق ، اور معاذ اللہ ، معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ
آپ کے فہم کی تکذ یب کرتے ھوئے اس امر کی وضاحت کے لیے کہ
آپ "9/80
" کا مفہوم نہیں سمجھ پائے۔ یہ آیت نازل کرے کہ
"ولا تصل علی احد
منھم مات ابدا"
9/84
" اور منافقوں میں
سے کوئی مرجائے تو اس پر کبھی بھی نماز نہ فرمانا۔۔اور اس کی قبر پر بھی نہ کھڑا
ھونا۔۔۔"
ولا تقم علی قبرہ " 9/84
المختصر:-
ابتدا میں واضح کیا جا
چکا ھے کہ اللہ تعالٰی نے قیامت تک کی نوع انسانی کے لیے ضابطہ حیات کے طور پر جو
آخری کتاب قرآن حکیم ، رسول آخرۖ کے ذریعہ نازل فرمائی ھے اس کی تفصیل و تفسیر خود اس کے اندر ھی محفوظ
کر دی گئی ھے۔ کتب روایات اس کی نہ تفسیر ھیں نہ تفصیل ۔ اور مروجہ تراجم و
تفاسیر میں باہمی اختلاف ،اور ھر ایک کے اندر شکمی تضاد، کی وجہ یہ ھے کہ اللہ
تعالٰی نے فہمید قرآن کے جو اصول و قواعد خود واضح کیے ھیں ان پر توجہ دینے کی
بجائے روایات کے اس ذخیرے کو قرآن کریم کی رسولی تفسیر تسلیم کر لیا گیا ھے۔جس سے
امت میں فرقہ بندی نے راہ پائی۔ اور وہ ھر فرقہ کے لیے رسولی تفسیر کے نام سے اس
کی ضروریات کا مواد مہیا کرتا ھے۔اگر فہمید قرآن کے قرآنی اصول و قواعد نگاہوں سے
اوجھل نہ ھوتے اور قرآن کریم کی تفسیر کے لیے تفسیر القرآن بالقرآن کے انداز پر
عمل کیا جاتا تو نہ امت میں فرقوں کا وجود پیدا ھوتا اور نہ ایک ایک آیت کے متعدد
مختلف اور متضاد معنی لیے جاتے۔۔۔۔اپنی آیندہ گزارشات میں ان قرآنی قوانین کو پیش
کروں گا کہ جس کا حکم یہ کتاب خود دیتی ھے اور جس پر عمل کرنے سے اللہ کی اس
انتہائی سادہ اور آسان کتاب کو سمجھنے کے لیے کسی علامہ یا مولانا کی کوئی ضرورت
ھی نہیں رھتی۔۔۔۔۔اور ھر آیت نکھر کر سامنے آ جاتی ھے۔
انشاء
اللہ۔۔۔۔۔
ان
گذارشات کے بعد میں ترتیب وار قرآن فہمی کے ان ابدی اُصولوں کو بیان کروں گا جو
اللہ کریم نے اس کتاب عظیم میں تا قیامت محفوظ کر دیے ھیں اور اُن اُصولوں کی
پیروی کرتے ھوئے آپ اس کتاب عظیم کو نہایت ھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں گے۔
No comments:
Post a Comment